ترجمة معاني القرآن الكريم

الترجمة الأردية

أمسح رمز الإستجابة السريع للصفحة

سورة الطارق

رقم الصفحة

آية

عرض نص الآية
عرض الهامش

آية : 1
وَٱلسَّمَآءِ وَٱلطَّارِقِ
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی.
آية : 2
وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا ٱلطَّارِقُ
تجھے معلوم بھی ہے کہ وه رات کو نمودار ہونے والی چیز کیا ہے؟
آية : 3
ٱلنَّجۡمُ ٱلثَّاقِبُ
وه روشن ستاره ہے.(1)
(1) طارق سے کیا مراد ہے ؟ خود قرآن نے واضح کر دیا۔ روشن ستارہ طَارِقٌ، طُرُوقٌ سے ہے جس کے لغوی معنی کٹھکھٹانے کے ہیں، لیکن طارق رات کو آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ستاروں کو بھی طارق اسی لئے کہا ہے کہ یہ دن کو چھپ جاتے اور رات کو نمودار ہوتے ہیں۔
آية : 4
إِن كُلُّ نَفۡسٖ لَّمَّا عَلَيۡهَا حَافِظٞ
کوئی ایسا نہیں جس پر نگہبان فرشتہ نہ ہو.(1)
(1) یعنی ہر نفس پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اچھے یا برے سارے عمل لکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں، یہ انسانوں کی حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں، جیسا کہ سورۂ رعد کی آیت نمبر ۔ 11 سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی حفاظت کے لئے بھی انسان کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں، جس طرح قول وفعل لکھنے والے ہوتے ہیں۔
آية : 5
فَلۡيَنظُرِ ٱلۡإِنسَٰنُ مِمَّ خُلِقَ
انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وه کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے.
آية : 6
خُلِقَ مِن مَّآءٖ دَافِقٖ
وه ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے.(1)
(1) یعنی منی سے، جو قضائے شہوت کے بعد زور سے نکلتی ہے۔ یہی قطرۂ آب ( منی ) رحم عورت میں جاکر، اگر اللہ کا حکم ہوتا ہے تو، حمل کا باعث بنتا ہے۔
آية : 7
يَخۡرُجُ مِنۢ بَيۡنِ ٱلصُّلۡبِ وَٱلتَّرَآئِبِ
جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے.(1)
(1) کہا جاتا ہے کہ پیٹھ، مرد کی اور سینہ عورت کا، ان دونوں کے پانی سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسے ایک ہی پانی اس لئے کہا کہ یہ دونوں مل کر ایک ہی بن جاتا ہے۔ تَرَائِبُ، تَرِيبَةٌ کی جمع ہے، سینے کا وہ حصہ جو ہار پہننے کی جگہ ہے۔
آية : 8
إِنَّهُۥ عَلَىٰ رَجۡعِهِۦ لَقَادِرٞ
بیشک وه اسے پھیر ﻻنے پر یقیناً قدرت رکھنے واﻻ ہے.(1)
(1) یعنی انسان کےمرنے کے بعد، اسےدوبارہ زندہ کرنے پر وہ قادر ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ وہ اس قطرۂ آب کو دوبارہ شرمگاہ کے اندر لوٹانے کی قدرت رکھتا ہے جہاں سے وہ نکلا تھا۔ پہلے مفہوم کو امام شوکانی اور امام ابن جریر طبری نے زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔
آية : 9
يَوۡمَ تُبۡلَى ٱلسَّرَآئِرُ
جس دن پوشیده بھیدوں کی جانچ پڑتال ہوگی.(1)
(1) یعنی ظاہر ہو جائیں گے، کیوں کہ ان پر جزا وسزا ہوگی۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے ہر غدر ( بدعہدی ) کرنے والے کے سرین کے پاس جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔ (صحيح بخاري، كتاب الجزية، باب إثم الغادر للبر والفاجر- مسلم كتاب الجهاد، باب تحريم الغدر) مطلب یہ ہے کہ وہاں کسی کا کوئی عمل مخفی نہیں رہے گا۔
آية : 10
فَمَا لَهُۥ مِن قُوَّةٖ وَلَا نَاصِرٖ
تو نہ ہوگا اس کے پاس کچھ زور نہ مدددگار.(1)
(1) یعنی خود انسان کے پاس اتنی قوت ہوگی کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے، نہ کسی اور طرف سے اس کو کوئی ایسا مددگار مل سکے گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔
آية : 11
وَٱلسَّمَآءِ ذَاتِ ٱلرَّجۡعِ
بارش والے آسمان کی قسم!(1)
(1) رَجْعٌ کے لغوی معنی ہیں، لوٹنا پلٹنا، بارش بھی بار بار اور پلٹ پلٹ کر ہوتی ہے، اس لئے بارش کو رَجْعٌ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ بادل، سمندروں سے ہی پانی لیتا ہے اور پھر زمین پر لوٹا دیتا ہے، اس لئے بارش کو رَجْعٌ کہا۔ بعض کہتے ہیں بطور تفاؤل عرب بارش کو رَجْعٌ کہتے تھے تاکہ وہ بار بار ہوتی رہے۔ ( فتح القدیر ) ۔
آية : 12
وَٱلۡأَرۡضِ ذَاتِ ٱلصَّدۡعِ
اور پھٹنے والی زمین کی قسم!(1)
(1) یعنی زمین پھٹتی ہے تو اس سے پودا باہر نکلتا ہے، زمین پھٹتی ہے تو چشمہ جاری ہوتا ہے اور اسی طرح ایک دن آئے گا کہ زمین پھٹے گی، سارے مردے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ اس لئے زمین کو پھٹنے والی اور شگاف والی کہا۔
آية : 13
إِنَّهُۥ لَقَوۡلٞ فَصۡلٞ
بیشک یہ (قرآن) البتہ دو ٹوک فیصلہ کرنے واﻻ کلام ہے.(1)
(1) یہ جواب قسم ہے، یعنی کھول کر بیان کر نے والا ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہو جاتے ہیں۔
آية : 14
وَمَا هُوَ بِٱلۡهَزۡلِ
یہ ہنسی کی (اور بے فائده) بات نہیں.(1)
(1) یعنی کھیل کود اور مذاق والی چیز نہیں ہے، هَزْلٌ، جِدٌّ ( قصد وارادہ ) کی ضد ہے ۔ یعنی ایک واضح مقصد کی حامل کتاب ہے، لہو ولعب کی طرح بےمقصد نہیں ہے۔
آية : 15
إِنَّهُمۡ يَكِيدُونَ كَيۡدٗا
البتہ کافر داؤ گھات میں ہیں.(1)
(1) یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) جو دین حق لے کر آئے ہیں، اس کو ناکام کرنے کے لئے سازشیں کرتے ہیں، یا نبی (صلى الله عليه وسلم) کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں اور منہ پر ایسی باتیں کرتے ہیں کہ دل میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔
آية : 16
وَأَكِيدُ كَيۡدٗا
اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں.(1)
(1) یعنی میں ان کی چالوں اور سازشوں سے غافل نہیں ہوں، میں بھی ان کے خلاف تدبیر کر رہا ہوں یا ان کی چالوں کا توڑ کر رہا ہوں۔ كَيْدٌ خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں، جو برے مقصد کے لئے ہو تو بری ہے اور مقصد نیک ہو تو بری نہیں۔
آية : 17
فَمَهِّلِ ٱلۡكَٰفِرِينَ أَمۡهِلۡهُمۡ رُوَيۡدَۢا
تو کافروں کو مہلت دے(1) انہیں تھوڑے دنوں چھوڑ دے.
(1) یعنی ان کے لئے تعجیل عذاب کا سوال نہ کر، بلکہ انہیں کچھ مہلت دے دے۔ رُوَيْدًا : قَلَيلا یا قَرِيبًا یہ امہال واستدراج بھی کافروں کے حق میں اللہ کی طرف سے ایک کید کی صورت ہے جیسے فرمایا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ (1) وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ ( الأعراف:182-183 ) ۔
تم الإرسال بنجاح